ایف سے جھنڈا




ایف سے جھنڈا

(تحریر: محمد عاصم بھٹی)

صبح کا وقت ہے ۔ میں گھر پہ ہی ہوں اور اپنے پڑوس سے آنے والی ان آوازوں کو بخوبی سن سکتا ہوں جو ایک چھوٹے بچے اور اس کے والدین کی ہیں۔ بچہ پڑھنے میں اور اس کے والدین اسے پڑھانے میں مصروف ہیں۔

A          سے       Apple
B          سے       Ball
C          سے       Cat
D          سے       Dog
E          سے       Elephant
F          سے       جھنڈا

والدین میں سے ایک کی آواز ابھری ۔’’ F           سے       Flag‘‘

بچہ بھی دہراتا ہے ۔ ’’ F       سے       Flag‘‘

یقیناً بچے نے پہچان لیا ہے کہ یہ جھنڈے کی تصویر ہے۔ تصویر دیکھ کر فوراً اس کے ذہن میں لفظ جھنڈا آیا۔ مگر یہ تو انگلش کی کتاب ہے۔اسے چیزوں کے نام انگلش میں پڑھنے اور یاد کرنے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وہ ان تصویروں اور چیزوں سے مانوس ہے اور اپنی زبان میں ان کے ناموں سے آگا ہ ہے۔ اگر بچے نے ایف سے جھنڈا کہا ہے تو اس سے پہلے الفاظ بھی اس نے ایسے ہی کہے ہوں گے۔

A          سے       سیب                 ’’نہیں بیٹا‘‘                       A          سے       Apple
B          سے       گیند                   ’’نہیں بیٹا‘‘                       B          سے       Ball
C          سے       بلی                     ’’نہیں بیٹا‘‘                       C          سے       Cat
D          سے       کتا                     ’’نہیں نہیں‘‘                    D          سے       Dog
E          سے       ہاتھی                  ’’ایسے نہیں‘‘                    E          سے       Elephant

یعنی  E  تک بچے نے انگلش سیکھ لی ہے اب ایف سے جھنڈے کی بجائے فلیگ کہنا ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا جائے گا۔ بچہ ہر تصویر کانام جانتا ہے مگر اسے اس نام کی جگہ ایک ایسا نام یاد کرنا ہے جو وہ نہیں جانتا ۔ جب وہ ایسا کر لے گا تو وہ ذہین اور لائق تصور ہو گا۔

اب بچہ گنتی پڑھ رہا ہے۔

ون سے ایک بلی
ٹو سے دو بلیاں
تھری سے تین ہاتھی
فور سے چار گیندیں
فائیو سے پانچ سیب

بچہ غلط پڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ اب اسے ٹوکنا ضروری ہو گیا تھا۔ بیٹا اس طرح پڑھو:

ون سے کیٹ ون
ٹو سے کیٹ ٹو
تھری سے ایلیفنٹ تھری
فور سے بال فور
فائیو سے ایپل فائیو

بچہ گنتی جانتا ہے ۔ وہ گن کر بتا سکتا ہے کہ اس تصویر میں کتنے سیب ہیں۔لیکن وہ گنتی اردو میں گن سکتا ہے۔ اب اسے انگلش میں گنتی سیکھنی ہے۔

اس سے آدھا گھنٹہ پہلے میں چھت پہ ہوں اور کچھ فاصلے پر موجود سکول کی اسمبلی کی آوازیں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مجھ تک پہنچ رہی ہیں۔ مائک باری باری مختلف بچوں کے حوالے ہو رہا ہےجو اپنی اپنی یاد کی ہوئی یا لکھی ہوئی باتیں سنا رہے ہیں۔انگلش میں اعلان ہو رہے ہیں کہ اب فلاں بچہ مائک سنبھالے گا۔کوئی انگلش میں تقریر کر رہا ہے۔ کوئی انگلش میں اقوال زریں سنا رہا ہے۔ کوئی معلومات اکھٹی کر کے لایا ہے کہ ہمارے فلاں محکمے کے وزیر کا نام فلاں جبکہ فلاں محکمے کے وزیر کا نام یہ ہے۔جب ہر بچہ اپنی بات مکمل کر لیتا ہے تو اسمبلی میں کھڑے بچے تالیاں بجا کر خوب داد دیتے ہیں۔

میں یہ سوچ رہا ہوں  کہ کیا یہ باتیں اردو میں نہیں بتائی جا سکتی تھیں؟ کیا اردو میں تقریر نہیں کی جا سکتی؟۔ کیا اردو میں اقوال زریں یا معلومات نہیں سنائی جا سکتیں؟ کیا اسمبلی میں کھڑے بچوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ وہ کیا سن رہے ہیں یا محض تالیاں بجانے کی رسم ادا کر رہے ہیں کہ انہیں انگلش میں کچھ سنایا جا رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے گھروں اور سکولوں میں بچوں کو انگلش کیوں سکھا اور سنا رہے ہیں۔ کیا ہم ایک ایسی  قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اپنی کوئی زبان ہی نہیں ہے اور جو بات کرنے کے لئے سمندروں پار ایک ایسے علاقے کے لوگوں کی زبان اختیار کرنے کی محتاج ہے جہاں کے لوگوں نے کبھی برصغیر پر حکومت کی تھی۔ جن کے وجود سے تو ہم نے آزادی حاصل کر لی مگر ان کی زبان آج بھی ہمارے حکمرانوں کی زبان ہے۔ آج کے دور میں درحقیقت ہم اپنی مرضی سے اور اپنی آزادی سے اپنے بچوں کو انگریزی سکھاتے ہیں۔

بچے کی زندگی کے وہ سال جو معلومات کے حصول کے لئے بہترین ہیں ، ہم ایک اجنبی زبان سکھانے میں صرف کر دیتے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہم بچوں کومعلومات دیں مگر اس زبان میں جو کہ اس نےابھی سیکھنی ہے۔ ہم بچوں کو نئی زبان کے سیکھنے کے عمل میں اتنا مصروف کر دیتے ہیں کہ کچھ بچے تو اس زبان سے گھبرا کر سرے سے تعلیم کو ہی خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

انگلش زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے مگر بچے کی زندگی کےوہ سال جو معلومات کے حصول کے لئے بہترین ہیں—    ان کی اہمیت اس غیرملکی اجنبی زبان سے زیادہ ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم جائزہ لیں کہ دیگر اقوام کیا کر رہی ہیں۔ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی قوموں کی تعلیمی پالیسیاں کیا ہیں؟ کیا وہ انگلش کے عالمی تسلط سے خوفزدہ ہو کر اپنے بچوں کی زندگیاں انگلش سکھانے میں ضائع کر رہی ہیں یا انہیں اپنی زبان میں تعلیم دے رہی ہیں؟

کیا چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری طاقت کی اصل وجہ بھی انگلش زبان کی تعلیم ہی ہے جس کے بل پر وہ امریکہ کے مدمقابل آیا ہی چاہتا ہے۔ کیا چینی بچوں کی ابتدائی زندگی بھی اپنے الفاظ کو بھولنے اور انگریزی الفاظ یاد کرنے میں گزرتی ہے۔  ہمیں اپنے اڑوس پڑوس کا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کر لینی چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ دنیا ترقی کرتی چلی جائے اور ہم اپنے بچوں کو ایک غیر ملکی زبان سکھانے میں اپنی اور ان کی توانائیاں ضائع کرتے رہیں۔

No comments:

Post a Comment