بہاورلپور گزٹ میں (سرائیکی) کی کھوج





بہاولپور گزٹ میں ’’سرائیکی ‘‘   کی کھوج

(محمد عاصم بھٹی)

محترم خالد مسعود خان نے روزنامہ دنیا کے 19 اپریل 2018ء کے اپنے کالم ’’لفظ سرائیکی کی حقیقت‘‘میں پروفیسر حسین سحر کی اپنی خودنوشت ’’شام و سحر‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس واقعے کو نقل کیا کہ کس طرح  ڈیرہ غازی خان، بہاولپور اور ملتان ڈویژن سے مدعو کئے گئے ادیبوں اور شاعروں کے ایک اجلاس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور میں بولی جانے والی مقامی زبان کو، جسے کہیں ریاستی یا بہاولپوری اور کہیں ملتانی کہا جا رہا تھا، ایک مرکزی نام دے دیا جائے کیونکہ یہ معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی زبان ہے۔ اس اجلاس کا اہتمام میر حسان الحیدری نے کیا تھا جبکہ یہ تجویز بھی انہوں نے ہی پیش کی۔ جب تجویز پیش کرنے والے سے اصرار کیا گیا کہ آپ ہی کوئی نیا اور مرکزی نام اس زبان کے لئے پیش کریں تو میر صاحب نے لفظ ’’سرائیکی‘‘ پیش کیا۔ یہ واقعہ 6 اپریل 1962ء کا ہے۔ وہاں موجود شعرا اور ادبا، جن کا ذخیرہ الفاظ عوام الناس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے، کے لئے بھی ’’سرائیکی‘‘ لفظ اجنبی اور غیرمانوس تھا، چنانچہ انہوں نے حیرت و استعجاب  اور اس لفظ کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ میر صاحب نے بتایا کہ شمالی سندھ میں اس زبان کو سرائیکی کہتے ہیں یعنی شمال کی زبان۔ چنانچہ ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور وغیرہ میں بولی جانے والی زبان کے لئے ’’سرائیکی‘‘ کے نئے نام پر اتفاق کیا گیا اور اس وقت سے یہی نام مستعمل ہے۔

اس واقعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ 6 اپریل 1962ء سے قبل پنجابی زبان کےجنوبی لہجوں  کے لئے کم از کم سرائیکی کا لفظ مستعمل نہیں تھا۔ چنانچہ اصولی طور پر ہمیں اس سے قبل کسی بھی کتاب میں اس زبان کے حوالے سے سرائیکی کا لفظ نہیں ملنا چاہئے۔ اور اگر بالفرض کوئی حوالہ مل گیا تووہ مذکورہ واقعے پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہو گا۔ ہاں اگر ریاستی، بہاولپوری یا ملتانی کا لفظ استعمال ہوا ہو تو وہ اس واقعے کی حیثیت کو مدلل بنا دے گا۔

ہمارے کہنہ مشق صحافی رؤف کلاسرہ نے روزنامہ دنیا میں 25 اپریل 2018ء کو’’سرائیکی کا مقدمہ‘‘ کے نام سے کالم لکھتے ہوئے  خالد مسعود خان کے اسی کالم کو سامنے رکھتے ہوئے بالواسطہ طور پر اسےتنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’’سرائیکی زبان کا مذاق اڑانے کے لئے ایک نئی بھد اڑانے‘‘ کے مترادف قرار دیا۔ آئیے دیکھیں کہ وہ اس ضمن میں کیا فرماتے ہیں:

’’اب سرائیکی زبان کا مذاق اڑانے کے لیے ایک نئی بھد اڑائی جا رہی ہے کہ جناب چھوڑیں یہ تو کل کی بات ہے۔ 1962ء میں چند سر پھروں نے بیٹھ کر ملتانی، بہاولپوری اور ڈیروی زبان کو سرائیکی کا نام دے دیا تھا لہٰذا اسے ایک زبان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ دانشور دوستوں نے شاید لاہور کے ایک نوجوان محقق اور زبردست مترجم یاسر جواد کا ترجمہ شدہ بہاولپور گزٹ نہیں پڑھا جو 1904ء میں چھپا تھا۔‘‘ اس سے آگے کلاسرہ صاحب لکھتے ہیں :’’ اس میں تفصیل سے لکھا ہے کہ انگریزوں کے دور میں بھی سرائیکی زبان کا یہ نام موجود تھا۔ اس گزٹ کے صفحہ 414 پر کمیاب تردید ملتی ہے۔ لکھا ہے: کوٹ سبزل اور گردونواح کے لوگ بہاولپوری اور سندھی دونوں لہجے بولتے ہیں اور موخرالذکر لہجے کو سرائیکی بھی کہتے ہیں۔ لہٰذا کم از کم 1904ء میں تو سرائیکی کا لفظ مستعمل تھا ہی۔‘‘

اس اردو ترجمے کے اقتباس کو بنیاد بنا کر رؤوف کلاسرہ نے  فی الحقیقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ  لفظ’’سرائیکی‘‘ پنجاب میں 6 اپریل 1962ء کو نہیں بلکہ اس سے 58 برس پہلے بھی استعمال ہو رہا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ رؤوف کلاسرہ  صاحب اردو ترجمہ کو بنیاد بنانے کی بجائے 1904ء میں انگریزی زبان میں شائع شدہ’’بہاولپور گزٹ ‘‘  کا اصل متن ہی دیکھ لیتے۔ ہمارے ایک دوست محترم ڈاکٹر محمد سمیع پنجابی‘ کی محققانہ طبیعت نے اصل متن کو کھوج نکالا ۔ انہوں نے نہ صرف حکومت پنجاب کی طرف سے 1904 میں شائع ہونے والے اس’’بہاولپور گزٹ ‘‘   کا خود بغور مطالعہ کیا بلکہ اس  کی نقل  ہمیں بھی مہیا کی، جس پر ہم ان کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔ آئیے اب ہم  رؤوف کلاسرہ کے پیش کردہ اردو ترجمہ پر تکیہ کرنے کی بجائے’’بہاولپور گزٹ ‘‘   کے اصل انگریزی متن میں لفظ سرائیکی کی کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ہم نے کوشش کی کہ ہم’’بہاولپور گزٹ ‘‘   کے کسی بھی صفحے سے لفظ ’’سرائیکی  ‘‘ ڈھونڈ نکالیں۔ مگر ہمیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کلاسرہ صاحب نے یاسر جواد کے جس اردو ترجمے کو بنیاد بنایا تھا اس میں صفحہ نمبر کا حوالہ اس گزٹ کے اردو ترجمے کا درج کیا گیا تھا۔ اصل انگریزی متن کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ صفحہ نمبر115 پر ریاست بہاولپور میں بولے جانے والی زبان کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ لیجیے ذیل میں ہم بہاولپور گزٹ کے صفحہ نمبر 115 کا وہ تراشہ پیش کرتے ہیں جس میں ریاست کی زبانوں کا ذکر ہے:


  اب ہم اس انگریزی متن کا اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو:

ریاست  میں بولے جانے والے لہجے یہ ہیں:

1.    مُلتانی یا مغربی پنجابی
2.    پنجابی (جٹکی یا اُبھیچڑ)
3.    سندھی
4.    مارواڑی راٹھی
(اے)۔ مُلتانی یا مغربی پنجابی اس علاقے میں بولی جاتی ہے جو دریاکے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے خیرپور کے مغرب سے احمد پور لمہ تک اور جنوب میں چولستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے بہاولپوری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لہجہ اور ڈیرہ غازیخان، ملتان اور مظفرگڑھ اضلاع کے لہجے آپس میں  مماثلت رکھتے ہیں اور سندھ ساگر دوآب کے لہجوں سے ملتے جُلتے ہیں۔

(بی)۔ ریاست میں بولے جانے والی پنجابی (جٹکی یا اُبھیچڑ) اُن لہجوں سے مماثلت رکھتی ہے جو وسطی پنجاب میں بولے جاتے ہیں۔ اس میں وہ علاقے شامل ہیں جو قائم پور (خیرپور کارداری) کے مشرق میں واقع ہیں۔

(سی)۔احمد پور لمہ کے مغرب میں اور کوٹ سبزل اور فتح پور مچکہ کے  گردو نواح میں سندھی اور بہاولپوری عام لہجے ہیں۔

(ڈی)۔ چولستان کا لہجہ مارواڑی راٹھی ہے۔

لیجیے قارئین، ریاست کی زبان کے حوالے سے بہاولپور گزٹ میں کہیں بھی ’’سرائیکی ‘‘ نام کی کسی زبان کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پیشہ صحافت سے وابستہ رؤوف کلاسرہ نے قلم جیسے مقدس آلے کو جھوٹ ، فریب اور مکر کے لیے استعمال کیا ہے۔ کم از کم کلاسرہ صاحب سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ چنانچہ اب یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ 1904 میں بھی لفظ ’’سرائیکی ‘‘ اپنا وجود نہیں رکھتا تھا اور یہی سچ ہے کہ  1962 میں  لفظ ’’سرائیکی ‘‘ کو  پنجابی زبان کے جنوبی لہجوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ پھر اسی لفظ کو بعد میں اپنی الگ شناخت اور علیحدہ قومیت کے لیے آلہ بنا کر برتا گیا۔  نہایت افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب صرف اور صرف پنجاب اور پنجابی زبان کے ٹکڑے کرنے کی غرض سے کیا گیا۔

 اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پنجاب  ہی پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں لسانی اور ثقافتی  یک رنگی پائی جاتی ہے۔ پورے پنجاب کے عوام خواجہ غلام فرید کی کافیوں کو اپنے صوفی ادبی ورثے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ پورے پنجاب کے لوک ادب میں ایک زبردست یکسانیت پائی جاتی  ہے۔ پنجابی زبان کے سبھی لہجوں میں موجود کہاوتیں،  لوگ گیت، ماہیے، ڈھولے،  ٹپے، لوریاں، لوک کہانیاں، شادی بیاہ کے گیت وغیرہ  کے درمیان ایک زبردست سانجھ موجود ہے۔ ملتانی لہجے کا مرثیہ اور مُلتانی حسینی دوہڑے پورے پنجاب میں پڑھے جاتے ہیں۔ پنجاب بھر کے ذاکر اپنی مجالس میں ملتانی لہجے میں تقریریں کرتے ہیں۔ یہ سب پنجابی زبان کے مختلف لہجوں کے درمیان مشترک اقدار ہیں۔   رؤوف کلاسرہ جیسے کتنے ہی دیگر کالم نگار پنجاب اور پنجابی زبان کی اس صدیوں سے موجود سانجھ کو توڑنے کی بھونڈی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ اس بے بنیاد لفظ’’سرائیکی ‘‘ کو تاریخ سے ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو پنجاب کی خلقت کے درمیان صدیوں سے پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی یک رنگی کو توڑ کر امن کی اس دھرتی’’پنجاب ‘‘  میں نفرتوں کے بیج بونے کا مکروہ کاروبار شروع کیے ہوئے ہیں۔   

No comments:

Post a Comment