پنجاب اور پنجابی



پنجاب اور پنجابی

(محمد عاصم بھٹی)

پاکستان میں صورتحال کچھ یوں ہے کہ انگریزی زبان اردو کو ہڑپ کرنے کے چکروں میں ہے اور اردو مقامی زبانوں کو۔ مقامی  یا صوبائی زبانوں میں سے حکومتی اور عوامی سطح پر سب سے  زیادہ نظر انداز ہونے والی زبان پنجابی ہے۔ اس زبان کے بولنے والے کو پینڈو یا دیہاتی کہا جاتا ہے۔ ایک مہذب ، شائستہ اور باوقار پنجابی کی تعریف یہ ہے کہ وہ پنجابی کی بجائے اردو بولے۔  ایک اچھی ماں اور ایک اچھا باپ وہ ہے جو اپنے بچوں کو شروع سے ہی اردو سکھائے اور پنجابی زبان سے حتی الوسع اور حتی المقدور ان کو دور رکھے۔ اپنے بچوں کے لئے ان دوستوں کا انتخاب کرے جو اردو بولیں اور پنجابی ہونے کے باوجود یہی ظاہر کریں کہ وہ اس کی قطعا سوجھ بوجھ نہیں رکھتے ۔

کچھ حضرات کے نزدیک  پنجابی زبان نچلے طبقے یعنی کمیوں کی زبان ہے۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو سر عام اور ببانگ دہل اس زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ ان حضرات کی رائے کے مطابق اگر آپ سہواً کسی سے پنجابی میں بات  کر لیتے ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اپنے مخاطب سے معذرت کریں ۔ کیونکہ کسی سے پنجابی میں بات کرنے کا مطلب اسے نچلے طبقے کا فرد سمجھنا ہے۔ بالفاظ دیگر آپ جس سے پنجابی میں بات کرتے ہیں اسے آپ کمی کہہ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

کمی کا مطلب کام کرنے والا ہے۔ تمام پیشے مثلاً نائی، موچی، درزی ، لوہار، ترکھان،جولاہا، مراثی ، مصلی اور اسی طرح جاگیرداروں کی زمینوں پہ کاشتکاری کرنے والے کسان بھی اسی درجے میں آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اپنے ہاتھوں سے محنت کرنے والے لوگوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور ان کے پیشوں کو ان کی ذات کا درجہ دے کر انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ذاتیں بالعموم اپنی ہی ذاتوں میں شادی بیاہ کرتی ہیں ورنہ آپس میں ہی بندھن باندھ لیتی ہیں  مگر ابھی اس قابل نہیں ہوئیں کہ دیگر نام نہاد اونچی ذاتوں میں اپنی جگہ بنا پائیں ۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مساوات کی اسلامی تعلیم کو بھلا دیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کسی قوم ، ذات، نسل ، رنگ یا زبان کو دوسرے پر فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے۔ ہم نے اس حدیث کو بھی بھلا دیا ہے کہ الکاسب حبیب اللہ۔ یعنی کاسب اللہ کا دوست ہے۔ کاسب سے مراد ہاتھ سے کام کرنے والا ہے۔ بالفاظ دیگر یہی کمی لوگ کاسب ہیں کیونکہ یہی اپنے ہاتھوں سے کام کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔

 انگریزوں کی آمد سے قبل یہی لوگ معزز تھے۔ مگر انگریزوں نے جان لیا کہ یہ اپنے فنون میں ماہر اور خودمختار ہیں چنانچہ ان کی خصلت میں جی حضوری نہیں ہو سکتی ۔ انگریزوں کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جو ان کی بات بلا چوں چراں مانیں اور جن میں حکم عدولی کا عنصر مفقود ہو۔ یہ لوگ نہ تو فوج میں بھرتی کیے جانے کے قابل تھے اور نہ ہی سرکاری ملازمتوں کے۔ چنانچہ ان کو سب سے نچلے طبقے میں ڈال کر ان کی بے توقیری کی گئی اور مولویوں کو بھی اسی درجے میں ڈال دیا گیا کیونکہ وہ بھی حق بات کرنے سے نہیں چوکتے اور انگریزوں کے مطلب اور کام کے نہیں ہو سکتے ۔ 

اگر آج کے دور میں پنجابی صرف کمیوں کی زبان رہ گئی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟  اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہاتھ سے کام کرنے والے ان پیشوں کے لئے استعمال ہونے والے تمام اوزاروں کے نام پنجابی میں ہی ہیں۔ان کثیرالاستعمال اوزاروں کے لئے اردو میں چند ایک کے گنے چنے نام ہی ہیں۔ چنانچہ اس مقام پہ اردو پنجابی کے سامنے دونوں گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور اپنی معذوری کا اعتراف کرتی ہے۔

مشہور فلسفیوں اور زبان دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان کی سوچ اس کی زبان کے ماتحت ہوتی ہے۔ ہماری زبان کی حدیں ہی ہماری سوچ کی حدیں ہوتی ہیں۔ اگر ہم ایک وسیع  زبان سے محروم ہیں تو بلاشبہ ہم ایک وسیع سوچ سے محروم ہیں اور ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں۔ پنجابی اپنے ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے بہت سے ایسے الفاظ سے مالا مال ہے جن کے اردو متبادل نہیں ہیں ۔ پھر اردو کے ایک لفظ کے مقابلہ میں پنجابی میں پانچ دس مترادف الفاظ ملتے ہیں جو اس چیز کی کیفیت، حالت اور ہییت کو زیادہ واضح  اور نمایاں کرتے ہیں۔

 بھلا ہو تین صوبوں کا کہ انہوں نے صوبائی زبانوں کو اپنے سکولوں میں جگہ دی اور بچوں کے نصاب میں ان زبانوں کو شامل کر کے بچوں کو اس قابل بنایا کہ وہ نہ صرف اپنی صوبائی زبانیں بول اور سمجھ سکیں بلکہ لکھ پڑھ بھی سکیں۔ خود کو باقی صوبوں سے ترقی یافتہ خیال کرنے والے پنجاب کے پنجابیوں کو بھی اللہ ہمت اور سمجھ دے کہ وہ بھی پنجابی کو اپنے سکول کی درسی کتابوں میں جگہ دیں ۔

پنجابی کے دامن میں صوفیا  کرام کا ایسا کلام موجود ہے جو انسان کو انسانیت کا درس دیتا ہے۔ دلوں کو توڑنے کی بجائے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ پیار  و محبت کا پرچار کرتا ہے۔ جھوٹ، مکر ، فریب، لالچ اور حسد کی مذمت کرتا ہے اور سچ ، ایمانداری ،  خلوص، اخوت اور ایثار وقربانی کی ترغیب دیتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور کم مائیگی واضح کرتا ہے۔ ہیرے جواہرات اور لعل و یاقوت کے مثل ایسے انسانیت خیز کلام  کو سمجھنے کے لئے قارئین کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے پنجابی زبان۔ یہ کلام دلوں میں اترنے اور اثر کرنے کی لاجواب صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ اسے اس کی زبان میں پڑھا جائے ۔ ترجمے میں وہ چاشنی و حلاوت باقی نہیں رہتی جو اصل کی روح ہوتی ہے۔ اگر صوفیائے کرام کے منتخب کلام  کو ان کی اصل زبان میں ہی سکولوں  کے بچوں  کو پڑھانے کا اہتمام کیا جائے تو یہ سارے صوبے میں بسنے والے افراد پر احسان عظیم ہو گا۔ اہلیان پنجاب میں اختلاف پیدا کرنے والے عناصر کی  کوششیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ لوگوں کو مثبت سوچ اور عمل کی ترغیب ملے گی ۔صوفیا کے یہ کلام  ہم سب کا مشترکہ ثقافتی ورثہ ہیں۔ اس مشترکہ ثقافتی ورثہ کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پنجاب کے ساتھ ساتھ ہم سب پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہم ذرا سی کوشش کر کے اپنے بچوں کوچند  منتخب اشعار زبانی یاد کروا سکتے ہیں اور ان کے معنی اور مفہوم  سے ان کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ ان سادہ سادہ اشعار میں کئی گہری باتیں چھپی ہیں  جو فکر و فہم کے نئے در وا کرتی ہیں اور دنیا  کو مختلف انداز اور زاویوں سے دیکھنے کے قابل بناتی ہیں۔


No comments:

Post a Comment