دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار

’’دنیا ہے روایات کے پھندوں  میں گرفتار‘‘

تحریر: محمد عاصم بھٹی

میں جب علامہ اقبال کے ایک شعر کے اس مصرعے کو  کہ ’’دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار‘‘ پڑھتا ہوں تو میرے سامنے سوالات کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔

کونسی ’’دنیا ‘‘روایات کے پھندوں میں گرفتار ہے؟ پوری دنیا یا کوئی مخصوص دنیا؟  یہ مذہبی دنیا ہے یا جغرافیائی دنیا؟  کیا عالم اسلام روایات کے شکنجے میں جکڑا ہو ا ہے یا عالم کفر؟ آیا مشرق روایات میں گھرا ہے یا مغرب؟  لوگوں کو روایات میں الجھانے والے کون ہیں؟ وہ کون سے ہاتھ ہیں جو انسان کو اس کے بچپن سے بڑھاپے تک روایات میں جکڑے رکھتے ہیں؟ کیا مذہبی پیشواؤں نے اپنے دنیاوی مفاد  کے حصول کے لئے عوام کو  روایات کی بھینٹ چڑھایا ہے یا نام نہاد سیاستدانوں نے اپنی سیاسی بساط پر روایات سے مہرے کا کام لیا ہے؟  کیا یہ سیاسی اور مذہبی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جو ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کو کندھا دیتے ہیں؟

کیا یہ سچ ہے کہ روایات ہمارے افکار کو پابند سلاسل کر دیتی ہیں؟ روایات منفی اور نقصان دہ ہوتی ہیں یا مثبت اور مفید؟ روایات معاشرے کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کمزور کرتی ہیں یا سنگ و آہن کی طرح معاشرے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ آیا روایات تبدیل کی جاسکتی ہیں یا ناقابل تغیر ہوتی ہیں؟ یہ فرداً فرداً سکھائی جاتی ہیں یا اجتماعی طور پر؟ کیا معاشرے اپنی روایات دوسرے معاشروں پہ تھونپ سکتے ہیں؟ کیا معاشرے غیر قوموں کی روایات کو کھمبی کی طرح چوس سکتے ہیں؟  کیا طاقت کے نشے میں چور غیر ملکی آقا اپنی روایات اور رسوم و رواج کو مفتوح قوموں کی رگ و پے میں اس طرح سرایت کر سکتے ہیں کہ ان کے جانے کے ستر برس بعد بھی نام نہاد آزاد قوم مفتوحی و مغلوبی  میں اپنی مثال آپ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آزاد قوم کی تربیت غلامی کے خطوط پر کی جا سکے؟ کیا برصغیریوں کے بدنوں میں ’’گورے دماغوں ‘‘کی پرورش ممکن ہے؟  کیا سکولوں کو ذہنی غلام تیار کرنے والی فیکڑیاں کہا جا سکتا ہے؟  کیا آج کا طالب علم یہ کہنے پہ مجبور نہیں ہے:

میری سوچوں  کو مقید نہ کرو درسی کتابو!
میرے افکار کی سرحدوں سے پہروں  کو ہٹا دو!
آزادی ہے مشروط غلامی سے ، بہت خوب!
اس دیس کو غلاموں کا کارخانہ بنا دو

 انگریزی کے مقناطیس نے ہمارے ذہنوں میں چھپے اردو الفاظ کو کیوں نکال کھینچا ہے؟ اردو میں انگریزی ملا کے بولنے کی روایت کس نے ڈالی ہے؟ کیا اردو میں متبادل الفاظ ہونے کے باوجود ہمارے جملے انگریزی الفاظ سے بوجھل نہیں ہیں؟  کیا ہماری سوچیں انگریزیت سے آلودہ نہیں ہیں؟  ہمارے بچے سکول جائیں تو اردو پنجابی پہ پابندی؟ گھر آئیں تو اردو پنجابی پہ پابندی؟ (حالات اسی ڈگر پر رہے تو عین ممکن ہے کہ جہاں فی الحال نرمی و رعایت کی گنجائش ہے ، وہاں بھی نہ رہے۔)کیا ہم پاکستان کو ایک ’’ آزاد اسلامی انگلستان‘‘ بنانا چاہتے ہیں؟؟

ہے ہم کو حکم سکول میں انگریزی ہی بولو
بولے کوئی اردو یا پنجابی تو سزا دو
بچوں کو گھروں میں سبھی انگریزی سکھاؤ
ماؤں کو سرکار کا یہ حکم سنا دو
آزادی میرے منہ پہ مجھی کو ہے تمانچہ
ہاں انگریزی سکھاؤ مجھے انگریز بنا دو

اقبال کے خواب کی تعبیر سلطنت خداداد پاکستان  بیس کروڑ لوگوں کا وطن ہے جن کی خودداری اور شاہینی اگر تھی تو کہیں کھو گئی ہے۔ ہمیں خود داری کا درس دینے والے ،’’میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے؛ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘ کی صدا لگانے والےاقبال کو کون بتائے کہ ہمارے حکمران ہاتھوں میں کشکول لئے ’’عالمی گداگری ‘‘کی پختہ روایت ڈال چکےہیں۔

ہمیں خود دار رہنا ہے تو کشکولوں سے یاری کیوں؟
گدا گر بن کے پھرتے ہیں جہاں بھر میں سوالی کیوں؟
خزانے حکمرانوں کے لبا لب بھر چکے کب کے
مگر جب ملک چلانا ہو تو بنتے ہیں بھکاری کیوں ؟

ہمیں صداقت ، امانت ، شجاعت اور عدالت کا سبق پڑھانے والے اقبال! تیری قوم جھوٹ، منافقت، ملاوٹ اور بددیانتی کی ایسی روایتیں ڈال چکی ہے کہ جہاں بھر میں ان کے تذکروں کے ساتھ ’’الامان و الحفیظ‘‘ کا ورد کیا جاتا ہے۔ لالچ ، طمع ، حرص اور خودغرضی  تمام (بشمول مذہبی)طبقات میں نفوذ کر چکی ہے۔ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی ضرب المثل ہماری اس روایت کی آئینہ دار ہے کہ ’’طاقت اختیارات کا سرچشمہ ہے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ جو بری روایتیں ہمارے ہاں عرصہ دراز سے موجود ہیں یا جن بری روایتوں کی داغ بیل زمانہ حال میں ڈالی جا رہی ہے۔ ان سے ہمیں چھٹکارہ کون دلا سکتا ہے؟  کیا ہماری انگریزیت زدہ نوجوان نسل  اپنے بڑوں کی قائم کردہ غلط روایتوں کو توڑنے میں کامیاب ہو سکے گی ؟  کیا اقبال کا  شاہین ، جسے اقبال نے قصر سلطانی کے گنبد کو چھوڑ کر پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کا مشورہ دیا تھا، اپنی سلفیاں بنا بنا کر فیس بک ، انسٹا گرام اور وٹس ایپ پہ لگانے اور دوسروں کی سلفیوں کو لائک اور کمنٹ کرنے  کی بیماری سے نجات  پا سکے گا؟ آج کے نوجوان نے شب بیداری اور سحر گاہی  کے اقبالی مقولے پر عمل تو کیا مگر چیٹنگ ، موبائل گیموں یا سستی فون کالوں کے لئے۔

افرنگی صوفوں اور ایرانی قالینوں پہ پرورش پانے والی نوجوان نسل کو میرا پیغام ہے کہ سنجیدگی سے اپنی تمام روایات کا  جائزہ لے اور تمام ایسی روایات جو مجموعی اور اجتماعی طور پر منفی اور نقصان دہ ہوں، ان کے خلاف آواز بلند کرے اور علمی اور عملی سطح پر اپنا کردار ادا کرے ۔کیونکہ کسی قوم میں جب بری خصلتیں عام ہو جائیں تو قانون فطرت اس قوم کو کسی اور قوم کے ہاتھوں مغلوب کر دیتا ہے۔ 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

No comments:

Post a Comment